والدین کے حقوق اور آداب!
اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الْکِبَرَ اَحَدُھُمَا اَوْ كِلاَھُمَآ فَلاَ تَقُلْ لَّھُمَآ اُفٍّ وَّلاَ تَنْھَرْھُمَا وَقُلْ لَّھُمَا قَوْلًا كَرِیْمًاo وَاخْفِضْ لَھُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَة وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْھُمَا كَمَا رَبَّیِٰنیْ صَغِیْرًاo رَبُّکُمْ اَعْلَمُ بِمَا فِيْ نُفُوْسِکُمْ ط اِنْ تَکُوْنُوْا صٰلِحِیْنَ فَاِنَّه كَانَ لِلاَ وَّابِیْنَ غَفُوْرًاo(بني إسرائیل : ع۳)
قرآن پاک کی آیات کامفہوم :
اگر وہ (یعنی ماں باپ) تیرے سامنے (یعنی تیری زندگی میں) بڑھاپے کو پہنچ جائیں، چاہے ایک ان میں سے پہنچے یا دونوں، (اور بڑھاپے کی بعض باتیں جوانوں کو گراں ہونے لگتی ہیں اور اس وجہ سے ان کی کوئی بات تجھے گراں ہونے لگے) تب بھی ان سے کبھی "اُف" بھی مت کرنا اور نہ ان سے جھڑک کر بولنا، ان سے خوب ادب سے بات کرنا اور ان کے سامنے شفقت سے انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اور یوں دعا کرتے رہنا کہ اے ہمارے پروردگار! تُو ان پر رحمت کر جیسا کہ انھوں نے بچپن میں مجھے پالا ہے۔ (اور صرف ظاہر داری ہی نہیں بلکہ دل سے ان کا احترام کرنا) تمہارا ربّ تمہارے دل کی بات کو خوب جانتا ہے، اگر تم سعادت مند ہو۔ (اور غلطی سے کوئی بات خلافِ ادب سرزد ہو جائے اور تم توبہ کرلو) تو وہ توبہ کرنے والے کی خطائیں بڑی کثرت سے معاف کرنے والا ہے۔
فائدہ:
حضرت مجاہد ؒ سے اس کی تفسیر میں نقل کیا گیا کہ
اگر وہ بوڑھے ہو جائیں اور تمہیں ان کا پیشاب پاخانہ دھونا پڑ جائے تو کبھی ’’اُف‘‘
بھی نہ کرو، جیسا کہ وہ بچپن میں تمہارا پیشاب پاخانہ دھوتے رہے ہیں۔
حضرت
علیؓ فرماتے ہیں کہ اگر بے ادبی میں ’’اُف‘‘ کہنے سے کوئی ادنیٰ درجہ ہوتا تو اللہ
اس کوبھی حرام فرما دیتے۔ حضرت حسنؓ سے کسی نے پوچھا کہ نافرمانی کی مقدار
کیا ہے؟ انھوں نے فرمایا کہ اپنے مال سے ان کو محروم
رکھے اور ملنا چھوڑ دے اور ان کی طرف تیزنگاہ سے دیکھے۔ حضرت حسنؓ سے
کسی نے پوچھا کہ ان سے ’’قولِ کریم‘‘ کاکیا مطلب ہے؟ انھوں نے فرمایا کہ ان کو ’’اماں، ابّا‘‘ کر
کے خطاب کرے، ان کانام نہ لے۔ حضرت زبیر بن محمد ؒ سے اس کی تفسیر میں نقل کیا گیا
کہ جب وہ پکاریں تو حاضر ہوں، حاضر ہوں سے جواب دے ۔ حضرت قتادہ ؒ سے نقل کیا گیا
کہ نرمی سے بات کرے۔ حضرت سعید بن المسیب ؒسے کسی نے عرض کیا کہ قرآنِ پاک میں
حسنِ سلوک کا حکم تو بہت جگہ ہے اور میں اس کو سمجھ گیا، لیکن ’’قولِ کریم‘‘
کامطلب سمجھ میں نہیں
آیا۔ تو انھوں نے فرمایا: جیساکہ بہت سخت مجرم غلام
سخت مزاج آقا سے بات کرتا ہے۔
حضرت
عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضورﷺکی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوئے۔ ان کے ساتھ ایک بڑے میاں بھی
تھے۔ حضورﷺ نے اُن سے پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ انھوں نے عرض کیا کہ یہ میرے والد ہیں۔ حضورﷺ
نے فرمایا کہ ان سے آگے نہ چلنا، ان سے پہلے نہ بیٹھنا، ان کا نام لے کر نہ پکارنا
اور ان کو برا نہ کہنا۔
حضرت
عُروہ ؒ سے کسی نے پوچھا کہ قرآنِ پاک میں ان کے سامنے جھکنے کا حکم فرمایا ہے،
اس کا کیامطلب ہے؟ انھوں نے فرمایا کہ اگر وہ کوئی بات تیری ناگواری کی کہیں تو
ترچھی نگاہ سے ان کو مت دیکھ ۔کہ آدمی کی ناگواری اوّل اس کی آنکھ سے ہی پہچانی
جاتی ہے۔
حضرت عائشہؓ حضورِاقدسﷺ سے نقل کرتی ہیں کہ جس نے باپ کی طرف تیز نگاہ کرکے دیکھا وہ فرماں بردار نہیں ہے۔
اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ عمل!
حضرت
عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ میں نے حضورﷺ سے دریافت کیا کہ اللہ کے نزدیک سب
سے زیادہ پسندیدہ عمل کیا ہے؟ حضورﷺ نے فرمایا کہ نماز کا اپنے وقت پر پڑھنا۔ میں
نے عرض کیا کہ اس کے بعد کون سا عمل ہے؟ حضورﷺ نے فرمایا: والدین کے ساتھ اچھا
سلوک کرنا۔ میں نے عرض کیا: اس کے بعد؟ حضورﷺ نے فرمایا: جہاد۔ ایک اور حدیث میں
حضورﷺ کا ارشاد وارد ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا والد کی رضا میں ہے اور اللہ کی
ناراضی والد کی ناراضی میں ہے۔ (دُرِّمنثور)
صاحبِ ’’مظاہر‘‘ نے لکھا ہے کہ ماں باپ کے حقوق میں ہے کہ ایسی تواضع اور تملُّق کرے اور ادائے خدمت کرے کہ وہ راضی ہو جائیں۔ جائز کاموں میں ان کی اطاعت کرے، بے ادبی نہ کرے، تکبر سے پیش نہ آئے اگرچہ وہ کافر ہی ہوں۔ اپنی آواز کو ان کی آواز سے بلند نہ کرے، ان کو نام لے کر نہ پکارے،کسی کام میں ان سے پہل نہ کرے، امر بالمعروف نہی عن المنکرمیں نرمی کرے۔ ایک بار کہے، اگر وہ قبول نہ کریں تو خود سلوک کرتا رہے اور ان کے لیے دعا و اِستغفار کرتا رہے، اور یہ بات قرآنِ پاک سے نکالی ہے۔ یعنی حضرت ابراہیم علیٰ نبینا وﷺ کی اپنے باپ کو نصیحت کرنے سے۔ (مظاہر بتغیر) یعنی حضرت ابراہیمﷺ نے ایک مرتبہ نصیحت کرنے کے بعد کہہ دیا تھا کہ اچھا اب میں ا للہ سے تمہارے لیے دعا کرتا ہوں جیساکہ سورۂ مریم کے تیسرے رکوع میں آیا ہے۔ حتیٰ کہ بعض علمانے لکھا ہے کہ ان کی اطاعت حرام میں تو ناجائز ہے، لیکن مشتبہ امور میں واجب ہے۔ اس لیے کہ مشتبہ امور سے اِحتیاطِ تقویٰ اورا ن کی رضا جوئی واجب ہے۔ پس اگر ان کامال مشتبہ ہو اور وہ تیرے علیحدہ کھانے سے مکدر ہوں تو ان کے ساتھ کھانا چاہیے۔
والدین اگر ظلم کریں تو ؟؟؟
حضرت
ابنِ عباسؓ ؓ
فرماتے ہیں کہ کوئی مسلمان ایسا نہیں جس کے والدین حیات ہوں اور وہ ان کے ساتھ
اچھا سلوک کرتا ہو، اس کے لیے جنت کے دو دروازے نہ کھل جاتے ہوں۔ اور اگر ان کو
ناراض کر دے تو اللہ اس وقت تک راضی نہیں ہوتے جب تک ان کو راضی نہ کرلے۔ کسی نے
عرض کیاکہ اگر وہ ظلم کرتے ہوں؟ ابنِ عباس ؓ نے فرمایا: اگرچہ وہ ظلم کرتے ہوں۔
حضرت
طلحہؓ فرماتے ہیں کہ حضورِ اقدسﷺ کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوئے اور جہاد میں شرکت
کی درخواست کی۔ حضورﷺنے فرمایا: تمہاری والدہ زندہ ہیں؟ انھوں نے عرض کیا: زندہ ہیں۔
حضورﷺ نے فرمایا کہ ان کی خدمت کو مضبوط پکڑ لو جنت ان کے پاؤں کے نیچے ہے۔ پھر
دوبارہ اور سہ بارہ حضورﷺ نے یہی ارشاد فرمایا۔
حضرت
انسؓ فرماتے ہیں کہ ایک شخص حضورﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یارسول اللہ!
میرا جہاد کو بہت دل چاہتا ہے لیکن مجھ میں قدرت نہیں۔ حضورﷺ نے فرمایا: تمہارے
والدین میں سے کوئی زندہ ہے؟ انھوں نے عرض کیا: والدہ زندہ ہیں۔ حضورﷺنے فرمایا کہ
ان کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہو۔ (یعنی ان کے حقوق کی ادائیگی میں فتویٰ سے آگے
بڑھ کر تقویٰ پر عمل کرتے رہو) جب تم ایسا کرو گے تو تم حج کرنے والے بھی ہو، عمرہ
کرنے والے بھی، جہاد کرنے والے بھی ہو۔ یعنی جتنا ثواب ان چیزوں میں ملتا اتنا ہی
تمہیں ملے گا۔
حضرت محمد بن المنکدر ؒکہتے ہیں کہ میرا بھائی عمر تو نماز پڑھنے میں رات گزارتا تھا اور میں والدہ کے پاؤں دبانے میں رات گزارتا تھا، مجھے اس کی کبھی تمنا نہ ہوئی کہ ان کی رات (کا ثواب) میری رات کے بدلہ میں مجھے مل جائے۔
عورت پر سب سے زیادہ حق !
حضرت
عائشہؓ کہتی ہیں میں نے حضورِ اقدسﷺ سے دریافت کیا کہ عورت پر سب سے زیادہ حق کس
کا ہے؟ حضورﷺ نے فرمایا: خاوند کا۔ میں نے پھر پوچھا کہ مرد پر سب سے زیادہ حق کس
کا ہے؟ حضورﷺنے فرمایا: ماں کا۔ ایک حدیث میں حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ تم لوگوں کی
عورتوں کے ساتھ عفیف رہو تمہاری عورتیں بھی عفیف رہیں گی۔ تم اپنے والدین کے ساتھ
نیکی کا برتاؤ کرو تمہاری اولاد تمہارے ساتھ نیکی کا برتاؤ کرے گی۔ (دُرِّمنثور)
والدین کی خدمت کا دنیا میں صلہ!
حضرت طائوس ؒکہتے ہیں کہ ایک شخص کے چار بیٹے تھے۔ وہ بیمار ہوا، ان بیٹوں میں سے ایک نے اپنے تین بھائیوں سے کہا کہ اگر تم باپ کی تیمارداری اس شرط پر کرو کہ تم کو باپ کی میراث میں سے کچھ نہیں ملے گا تو تم کرو، ورنہ میں اس شرط پر تیمارداری کرتا ہوں کہ میراث میں سے کچھ نہ لوں گا۔ وہ اس پرراضی ہو گئے کہ تو ہی اس شرط پر تیمارداری کر ہم نہیں کرتے۔ اس نے خوب خدمت کی لیکن باپ کا انتقال ہی ہوگیا اور شرط کے موافق اس نے کچھ نہ لیا۔ رات کو خواب میں دیکھا، کوئی شخص کہتا ہے: فلاں جگہ سو دینار (اشرفیاں) گڑی ہوئی ہیں، وہ تو لے لے۔ اس نے خواب میں ہی دریافت کیا کہ ان میں برکت بھی ہوگی۔ اس نے کہا کہ برکت ان میں نہیں ہے۔ صبح کو بیوی سے خواب کاذکر کیا، اس نے ان کے نکالنے پر اصرار کیا اس نے نہ مانا۔ دوسرے دن پھر خواب دیکھا جس میں کسی دوسری جگہ دس دینار بتائے۔ اس نے پھر وہی برکت کا سوال کیا، اس نے کہا کہ برکت ان میں نہیں ہے۔ اس نے صبح کو بیوی سے اس کا بھی ذکر کیا، اس نے پھر اصرار کیا مگر اس نے نہ مانا۔ تیسرے دن اس نے پھر خواب دیکھا، کوئی شخص کہتا ہے: فلاں جگہ جا، وہاں تجھے ایک دینار (اشرفی) ملے گا وہ لے لے۔ اس نے پھر وہی برکت کا سوال کیا، اس شخص نے کہا: ہاں اس میں برکت ہے۔ یہ جاکر وہ دینار لے آیا اور بازار جاکر اس سے دو مچھلیاں خریدیں جن میں سے ہر ایک کے اندرسے ایک ایسا موتی نکلا جس قسم کا عمر بھر کسی نے نہیں دیکھا تھا۔ بادشاہِ وقت نے ان دونوں کو بہت اصرا ر سے نوّے خچروں کے بوجھ کے بقدر سونے سے خریدا۔
Download in PDF
Click on the right corner Arrow button


0 Comments